Saturday, September 5, 2009

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (1)

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (1)خالد کاشمیری


ہفتہ ستمبر 5, 2009

کراچی سمیت صوبہ سندھ کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں ڈاکوؤں نے اودھم مچا رکھا تھا مار دھاڑ آبروریزی، اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتی اور رہزنی کی ان گنت وارداتوں نے عوام میں خوف وہراس پیدا کر رکھا تھا۔ شریف شہریوں کا جینا دو بھر ہو چکا تھا اس ابترصورت حال کو سنبھالا دینے کے لئے صوبہ سندھ کی حکومت کو فوج کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ اسی فوجی آپریشن کے دوران انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے زیر اہتمام پنجاب سے تعلق رکھنے والے قریباً ایک درجن سینئر صحافیوں پر مشتمل وفد کو صوبہ سندھ کا ایک ہفتہ کا دورہ کرایا گیا سینئر ہونے پر راقم الحروف اس وفد کا قائد تھا۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے اس وقت کے افسر تعلقات عامہ میجر سفیر تارڑ اس وفد کو لے کر صوبہ سندھ روانہ ہوئے اس دورے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ صوبہ سندھ میں ڈاکوؤں نے اپنی دہشت ناک کارروائیوں سے شہری زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اس صورت حال کا سدباب کرنے اور اندرون سندھ اور شہروں میں ڈاکوؤں اور شرپسند عناصر کا قلع قمع کرکے امن بحال کرنے میں فوج نے جو کردار ادا کیا اور کررہی ہے اس سے اخبار نویسوں کو آگاہ کیا جائے اور پنجاب کے اخبار نویس ایسی صور تحال کا بنفس نفیس ملاحظہ کر سکیں۔
پنجاب کے اخبار نویس آئی ایس پی آر کے افسر تعلقات عامہ میجر سفیر تارڑ (جو کرنل کے عہدہ پر ترقی پانے کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں) کی سرکردگی میں بذریعہ طیارہ 20دسمبر کی رات لاہور سے سکھر پہنچے تھے اپنے دورہ سندھ کے دوران میں وفد کے ارکان نے پنو عاقل چھاؤنی گھوٹکی، قادر پور، خیر پور، گوٹھ صادق ،کلہوڑو، حیدر آباد اور کراچی کا تفصیلی دورہ کیا فوج کے ذمہ دار افسروں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں صحافیوں نے صوبے کے اس کچے کے وسیع وعریض علاقہ کو بھی دیکھا جو ڈاکوؤں کی آماجگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور یہ علاقہ گھنے جنگلات کی صورت میں ہے۔بہرحال21دسمبر1992ء کو پنوں عاقل چھاؤنی کے جی او سی میجر جنرل سلیم ارشد نے اخبار نویسوں سے گفتگو کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سندھ میں پائیدار امن کے لئے سیاسی سفارشوں کو ختم کرنا ہوگا۔ غریب عوام فوج کے چلے جانے کے خوف سے ڈاکوؤں کے خلاف گواہی دینے سے کتراتے ہیں فوج نے سندھ میں امن وامان سے عبارت مشن کے حصول کی خاطر اپنے 23افسروں اور جوانوں کی قربانی دی ہے۔ کلاشنکوف سے کسی بھی شخص کو ہلاک کردینا ڈاکوؤں کے لئے معمول کی کارروائی کا حصہ تھا۔ فوج نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے جو کارروائی کی خدا کے فضل سے اس کے نتائج کوئی معمولی نوعیت کے نہیں ہیں ۔

گوٹھ صادق سے ہیلی کاپٹر جنگل پر پرواز کرتا ہوا چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع موضع آدم کلہوڑہ اترا۔ وہاں فوج نے عارضی ہیلی پیڈ بنایا ہوا تھا فوجی ترجمان نے بتایا کہ آدم کلہوڑہ کا جنگل اڑھائی ہزار ایکڑ رقبے پر محیط ہے اسی جگہ فوجی یونٹ نے اپنا پڑاؤ رکھا ہوا تھا ہیلی کاپٹر کی آمد اور پھر اسکے اترنے پر جب دور ونزدیک کے کچھ لوگوں کو معلوم ہوا کہ اخبار نویسوں کی ایک جماعت علاقے کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے آئی ہے تو بہت سے مرد اور بچے دوڑتے ہوئے وہاں آئے ان میں ایک ستر سالہ باریش بزرگ حاجی آدم کلہوڑو بھی تھے انہوں نے بتایا ان کا خاندان صدیوں سے اس جگہ آباد ہے انہوں نے بتایا کہ یہ گاؤں آدم کلہوڑو انہی کے نام پر ہے مگر گزشتہ برس سے اس جگہ پر ڈاکوؤں کا راج ہوگیا امن وامان کی اس زمین پر خوفناک قسم کی وارداتیں ہونے لگیں ڈاکو جس کو چاہتے اٹھا کر جنگل میں لے جاتے مقامی لوگ اپنی عزت وناموس کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں بربادی کے خوف سے نقل مکانی کر گئے۔ پھر جب فوج نے یہاں آکر ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنا شروع کیا تو لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں آنے کی ہمت ہوئی۔

22دسمبر کو ہم لوگ گھوٹکی میں تعینات فوج کی 17ایف ایف کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جو محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤس میں تھا وہاں لیفٹیننٹ کرنل جاوید ریاض نے بات چیت کے دوران بتایا کہ اس علاقے میں آپریشن امن کا آغاز جولائی کے آغاز پر کیا تھا۔8جولائی1992ء سے قبل اس علاقے میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں معمول کی بات تھی مگر آپریشن کے بعد چھ ماہ ہونے کو آئے ہیں اس دوران میں اغواء کی صرف سات وارداتیں ہوئی ہیں۔فوج نے ان سب اغواء ہونے والوں کو برآمد کر کے بدنام زمانہ ڈاکو کو گرفتار کرلیا جبکہ گھوٹکی سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع قادر پور، میرپور متھیلو اور اوباڑو کو ایسی وارداتوں سے پاک کر دیا تھا ۔ خیرپور صوبہ سندھ کے ان علاقوں میں سرفہرست تھا جہاں ڈاکو راج قائم ہو چکا تھا شہریوں کا جینا محال تھا ڈاکو ساری رات جدید ترین اسلحہ کے ساتھ شہری آبادی میں وارداتیں کرتے اور پوپھوٹتے ہی قریبی گھنے جنگلوں میں روپوش ہو جاتے خیر پور میں بریگیڈئیر غازی نے صورت حال کی تازہ ترین تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جون سے لے کر دسمبر1992 تک خیرپور ضلع میں ڈاکوؤں کے ساتھ فوج کے30مقابلے ہوئے ان میں ایسے ڈاکو بھی مارے گئے جن کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر بھاری رقوم کے انعامات رکھے گئے تھے ان میں ایک ڈاکو یسٰین چانڈیو بھی تھا جس کے لئے بیس لاکھ روپے کا انعام تھا بریگیڈئیر غازی کے مطابق خیر پور میں مجموعی طور پر564 مشکوک افراد گرفتار کئے گئے۔ابتدائی تفتیش کے بعد241کو رہا کردیاگیا 90 ڈاکو فوج کے ہاتھ لگے گرفتار شدہ ہتھیاروں کی تعداد 31اور 63پستول،33 کلاشنکوف، 33 کاربین اور 98شارٹ گن برآمد کی گئیں۔ میرپور سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنگل کے کنارے کنارے پرواز کرتے ہوئے گوٹھ دوست محمد گئے تو گاؤں خالی تھا کاشت کار ڈاکوؤں کے بھتہ مانگنے پر نقل مکانی کرچکے تھے۔ 22دسمبر1992ء ہی کو متعدد علاقوں کے دورے کے بعد سہ پہر تقریباًتین بجے بذریعہ ہیلی کاپٹر سکھر روانہ ہوئے جہاں آرٹلری ہیڈ کوارٹر میں چائے پینے کے بعد سکھر شہر میں گھومے اور رات نو بجے بذریعہ طیارہ سکھر سے کراچی چلے گئے اندرون سندھ کے تھکا دینے والے دو روزہ انتہائی تفصیلی دورے کے دوران اخبار نویس اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صوبہ سندھ میں امن وامان کی ناگفتہ بہ حالت کو عسکر ی پاکستان نے سدھار دیا ہے اور شہریوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے وہ خود کو محفوظ خیال کرنے لگے ہیں اور ڈاکوؤں کا رعب ودبدبہ نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ ڈاکوؤں کے گروپوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے یہی تاثر لے کہ ہم کراچی پہنچے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تھی کہ فوج کو سندھ میں امن مشن کے لئے بھیجا گیا تھا اور اس کا اظہار کھلے لفظوں میں صوبہ سندھ میں تعینات اعلیٰ فوجی حکام کی طرف سے بھی بات چیت کے دوران کیاگیا کہ ہم آئین کے دفعہ 147کے تحت صوبائی حکومت کی مدد کے لئے آئے ہیں ۔فوج نے اپنا مشن پورا کردیا ہے اور مستقبل میں کبھی امن وامان اتنا برا نہیں ہوگا جسے درست کرنے کے لئے فوج آئی ہوئی ہے نہ ہی مستقبل میں اتنا اچھا امن وامان ہو سکے گا جتنا اب ہو چکا ہے ۔ 23دسمبر کی صبح فوجی حکام کے ساتھ ہم کراچی کے مشہور ومعروف علاقے لائنز ایریا کا رخ کر رہے تھے ٹھیک دس بجے صبح ہم اخبار نویسوں کی جماعت لائنز ایریا کے ٹارچر سیل میں حیران وششدر کھڑی تھی اسی ٹارچر سیل کی عمارت ہی قلعہ نما قسم کی تھی۔ بیرونی دیواروں میں گنوں اور کلاشنکوفوں کی نالیوں کو باہر نکالنے کے لئے سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ اندر بیٹھے لوگ اسلحہ کی نالیاں باہر نکال کر مورچہ بند ہو سکیں اس مضبوط دیوار کے اوپر آئینی جنگلا تھا ٹارچر سیل میں ہونے والی اذیت ناک کارروائیوں کے بارے میں فوجی حکام نے بتایا کہ عمارت کے ہال نما کمرے میں اذیتیں دینے والے آلات بھی تھے فوجی ترجمان نے بتایاکہ بہت سے آلات تو فوج اکھاڑ کر لیجا چکی ہے اردگرد سے لوگوں کا ہجوم فوجیوں کے ساتھ اخبار نویسوں کو دیکھ کر وہاں جمع ہو گیا ہر مرد وزن اپنی اپنی المناک بپتا سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment