Saturday, September 5, 2009

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (آخری قسط)

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (آخری قسط)خالد کاشمیری



اتوار ستمبر 6, 2009

ان میں بوڑھے بھی تھے ،نوجوان بھی اور مائیں بھی اور بہنیں بھی مہاجر قومی موومنٹ اور اسکی قیادت کے حوالے سے ان کی داستان اہم ایک الگ باب کی حیثیت رکھتی تھیں ان مظلوموں کی تصاویر اور فریادیں راقم الحروف کے پاس موجود ہیں۔
لانڈھی نمبر2کراچی کے ٹارچر سیل میں داخل ہوتے ہی اخبار نویسوں پر دہشت سی طاری ہو گئی یہ ٹارچر سیل لائنز ایریا کے ٹارچر سیل سے بڑا تھا کراچی کے صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقہ نمبر96میں واقع تھا بتایاگیا اس سیل کو ایم کیو ایم نے وائٹ ہاؤس کانام دے رکھا ہے اس کی بلند وبالا دیواروں پر آئینی گارڈر ڈال کر لوہے کی چھت ترتیب دی گئی تھی آئینی سٹرکچر سے موٹے رسے اور لوہے کی زنجیریں لٹکائی گئی تھیں ٹارچر سیل میں لانے والوں کو رسوں اور زنجیروں سے الٹا لٹکایا جاتا یہاں بھی اپنی اپنی داستان رنج وغم سنانے والوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا وہیں اخبار نویسوں سے ایم کیو ایم کے کارکن اور سابق رکن اسمبلی یونس خان سے ملاقات ہوئی یونس خان نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹارچر سیلوں اور ان میں مخالفین پر روا رکھے جانے والے روح فرسامظالم کا راز انہوں نے طشت ازبام کیا جب ایم کیو ایم کی قیادت سے یونس خان اور ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا یونس خان نے فوجی حکام کی موجودگی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ لانڈھی میں وائٹ ہاؤس نامی اس ٹارچر سیل کو مخالفین کو اذیتوں سے دوچار کرنے کے لئے بنایاگیاتھا وہاں لوگوں نے فوجی حکام کی موجودگی میں کھلے لفظوں میں کہا کہ اس ٹارچر سیل کے سلیم شہزاد اور صفدر باقر ی نامی لوگ تھے یہاں مخالفین کو زنجیروں سے باندھ کر سرنج لگا کر ان کا سارا خون نچوڑ کر موت کی نیند سلایا جاتا۔
ٹارچر سیلوں میں روا رکھی جانے والی ہولناک کارروائیوں کی پکار کرنے والے لوگوں کے ہجوم میں اخبار نویسوں نے فوجی حکام کے ساتھ فلائنگ کوچ میں ملیر کا رخ کیا جہاں کراچی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل سلیم ملک نے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا ان کی باتیں چونکا دینے والی تھیں یہ باتیں ملک بھر کے اخبارات کی زینت بنیں ریکارڈ اب تک موجود ہے جی او سی کراچی سلیم ملک نے کہا کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے 33ٹارچر سیلوں کو فوجی آپریشن سے ختم کیاگیا جن شاہراوں کی ایم کیو ایم نے قلعہ بندیاں کی تھیں وہاں سے اٹھارہ سو آہنی درازوں کو اکھاڑ پھینکا گیا اور ان شاہراہوں کو عوام کے لئے کھول دیاگیا انہوں نے کہا کہ جب آئین کی دفعہ147کے تحت مئی1992ء میں فوج کو سندھ بھیجا گیا تو اس وقت سندھ میں صوبائی حکومت موجود تھی مگر اس شہر کا امن وامان غارت ہو چکا تھا اتنا بڑا شہر سرشام ہی سناٹوں کی گود میں چلا جاتا تھا کراچی سمیت پورا سندھ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ فوج کی طرف سے آپریشن امن1992ء کراچی کی پوری داستان سے یہ بات کہیں ظاہر نہیں ہوتی نہ اس کے حقائق سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ آپریشن ایم کیو ایم یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف تھا صرف کراچی میں امن وامان کی بحالی کے حوالے سے فوج کو ایم کیو ایم کے ٹارچر سیلوں اور خود ساختہ نوگوایریاز کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے پڑے جبکہ آپریشن1992ء صوبہ سندھ میں ڈاکو راج ختم کر کے امن وامان بحال کرناتھا۔
25دسمبر1992ء کی شام ہم سب میجر( اب کرنل ریٹائرڈ) سفیر تارڑ کے ساتھ فلائنگ کوچ میں بیٹھے کراچی سے حیدر آباد کا رخ کئے ہوئے تھے حیدر آباد میں ہمارا پڑاؤ18ویں ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر تھا جہاں حیدر آباد کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرلہراسب خان ہمارے منتظر تھے رات کے پونے آٹھ بج چکے تھے میجر جنرل لہراسب خان نے بریفنگ ہال میں اخبار نویسوں سے مصافحہ کیا حال احوال پوچھا پھر کہا کہ صوبہ سندھ میں ڈکیتیوں نے کاروبار کی صورت اختیار کرلی تھی چین اور جاپان کے باشندوں کے اس صوبے سے اغواء ہونے سے ملک کی بدنامی بھی ہوئی مگر خدا کا فضل ہے کہ فوج کو صوبے میں امن وامان کی بحالی اور ڈاکوؤں کی سرکوبی کا جو کام سونپا گیا تھا اس نے اسے پورا کردیا ہے اب یہاں مکمل امن وامان ہو چکا ہے ڈاکوؤں ،زمینداروں اور جاگیرداروں کے امن دشمن سنگین اقدامات کی بہت سی باتوں کے علاوہ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ مہاجر قومی موومنٹ ایک سیاسی جماعت تھی جو پچھلی اور موجودہ حکومت کی حلیف تھی حکومت میں شامل رہی چنانچہ ایم کیو ایم نے اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلحہ کے بے شمار لائسنس حاصل کئے جس کی بنیاد پر ہتھیار لئے گئے اس میں سے اکثر اسلحہ لائسنس بوگس ناموں اور پتوں پر حاصل کئے گئے تھے جن کی اب نشاندہی بھی نہیں کی جاسکتی میجر جنرل ہراسب نے کہا کہ ایم کیو ایم کو حکومت ہی نے مسلح کیا تھا مگر یہ تو سیاست کی بات ہے جس میں ہم ملوث نہیں ہونا چاہتے تاہم اگر کل کو حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کی دوبارہ سرپرستی کی جاتی ہے تو لاقانونیت کی کیفیت دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے اس موقع پر ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ بھی اخبار نویسوں میں تقسیم کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ جولائی 1991ء کے پہلے ہفتہ وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے 6000/- اسلحہ لائسنس منظور کر کے ایم کیو ایم کے وائس چےئر مین سلیم شہزاد کو دئیے گئے ایم آئی کی اعلیٰ ترین سطح سے یہ رپورٹ20جولائی1991ء کو جاری کی گئی تھی۔

No comments:

Post a Comment