Saturday, September 5, 2009

Sindh Operation ki Kahaniyan

آخری وقت اشاعت: Saturday, 5 september, 2009, 09:58 GMT 14:58 PST

کھارادر سے کھجی گراؤنڈ تک

حسن مجتبٰی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیو یارک



سنہ بانوے میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی۔

مئی انیس سو بانوے میں حیدرآباد کے قریب گائوں ٹنڈو بہاول میں فوجی آپریشن میں قتل ہونیوالے نو کسانوں اور کھیت مزدوروں کے قتل کی تحقیقات کے لیے جب سندھ کے اس وقت کے کور کمانڈر جنرل نصیر اختر ٹنڈو بہاول گاؤں آئے تھے تو وہاں انہوں نے واقعے کے ایک چشم دید گواہ چھوٹے بچے سے پوچھا تھا کہ اس کے گھر پر چڑھائي کر کے اس کے ابا کو گرفتار کرنے والے لوگوں نے بھلا کپڑے کس طرح کے پہنے ہوئے تھے؟ بچے نے کور کمانڈر کی وردی کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایسے کپڑے جیسے تم نے پہنے ہوئے ہیں‘۔ ٹنڈو بہاول آج کسے یاد ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انیس سو نوے سے لیکر چھیانوے تک کراچی اور سندہ کے شہری دیہی علاقوں میں جتنے ایم کیو ایم اور غیر ایم کیو ایم لوگ مارے گئے، جتنے سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ اور اردو بولنے والے لوگ مارے گئے، جتنے پولیس، فوج اور رینجرز کے لوگ مارے گۓ ، کھاردار سے لیکر کھجی گراؤنڈ تک، لانڈھی سے لیکر لالو کھیت یا لیاقت آباد تک، منگھو پیر سے لیکر ملیر تک ان تمام لوگوں کے خون کا سراغ کسی کی گردن یا ہاتھوں پر ڈھونڈ لیا جاتا لیکن یہاں حساب بے باک ہو چکا ہے یعنی کہ ’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘۔

بریگیڈئیر امتیاز اور جنرل نصیر اختر یا حمید گل جیسے پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے ’ولی اللہ‘ اور ’بزرگان دین‘ نے مقدس اعترافات کر لیے جس کی کوئي سزا نہیں۔

’اور یہ وہ سورما ہیں جو آئی ایس پی آر کی ٹینکوں پر چڑھے سچ کی وادی کی سیر کو نکلے ہوئے ہیں‘۔ یہ الفاظ تھے جریدے ’نیوز لائن‘ کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی کے جو انہوں نے انیس سو بانوے میں سندھ میں فوجی آپریشن پر نکلنے والے شمارے میں اپنےادرایے میں اس وقت لکھے تھے جب پاکستان کا تقریباً تمام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا فقط فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز ہی چھاپ رہا تھا۔
فوج کی ایجنسی ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) اور دوسری طرف انٹیلیجنس بیورو جس کے ڈائریکٹر جنرل تب بریگیڈئير امتیاز تھے اور آئی ایس آئی کے مابین بھی زبردست شورش نما چپقلش تھی۔ ان ایجنسیوں نے ہر اس شخص ادارے، افسر ، تنظیم اور لیڈر پر دست شفقت رکھا ہوا تھا جو یا سندھ کی صورتحال کی خرابی میں ایندھن پھونک سکتا تھا یا پھر سویلین حکومت کی چولیں ہلا سکتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ نیوز لائن کا وہ پرچہ جس کے سرورق پر فوجی کو لانگ بوٹ تلے ایم کیو ایم کا جھنڈا روندتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ان دنوں ایم کیو ایم کا جھنڈا یا اس کے سربراہ الطاف حسین کی تصویر کا کسی سے برآمد ہونا ٹارچر اور شاید کچھ حالات میں موت کو دعوت دینا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ اسی رضیہ بھٹی اور ان کے جریدے نیوز لائن کے عملے کو ایم کیو ایم میں دھڑے بندی یا اندرونی لڑائي کے متعلق رپورٹیں چھاپنے پر دہلی کالونی کے جلسے میں ایم کیو ایم کے سربراہ نے اپنی تقریر میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔

وہ فقط ایم کیو ایم کے اندر دو دھڑوں کے بیچ دنگا تھا بلکہ فوج کی ایجنسی ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) اور دوسری طرف انٹیلیجنس بیورو جس کے ڈائریکٹر جنرل تب بریگیڈئير امتیاز تھے اور آئی ایس آئی کے مابین بھی زبردست شورش نما چپقلش تھی۔ ان ایجنسیوں نے ہر اس شخص ادارے، افسر ، تنظیم اور لیڈر پر دست شفقت رکھا ہوا تھا جو یا سندھ کی صورتحال کی خرابی میں ایندھن پھونک سکتا تھا یا پھر سویلین حکومت کی چولیں ہلا سکتا تھا۔

ایم کیو ایم کے دونوں متحارب گروپوں کے پاس ایک دوسرے کے کارکنوں کی ہٹ لسٹیں تھیں جن کے مطابق وہ ایک ایسے’سپرے‘ میں مصروف تھے کہ انیس سو بانوے سے انیس سو چھیانوے تک صرف کراچی میں دو ہزار لوگ قتل ہو چکے تھے۔ سرِ شام تھانوں کے دروازوں پر تالے پڑ جاتے مگر پھر بھی تقریباً وہ سب پولیس افسر قتل کر دیے گئے جنہوں نے کراچي آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
’امبیڈیڈ جرنلسٹ‘ کا نام تو بہت بعد میں عراق کی جنگ میں سننے میں آیا لیکن کراچي اور پاکستان کا میڈیا تو بہت پہلے سے ہی امبیڈیڈ یا فوج کے ہمرکاب ہو چکا تھا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب کوئي بھی جوان اور مرد جس کی عمر تیرہ سے چالیس سال ہوتی اپنے گھر میں شاذ ونادر ہی رات کو سوتا تھا۔ چھاپے، محاصرے، ٹارچر، گمشدگیاں، بوری میں بند لاشیں عام تھیں۔ مجھے شاہ فیصل کالونی کے رہائشی ایک بزرگ نے اپنے ننھے منھے پوتے کی موت پر بتایا تھا کہ کئي ماہ میں یہ علاقے میں پہلی موت ہے جو غیر فطری نہیں تھی۔ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ جیسا علاقہ بھی سرشام بند ہو جاتا تھا اور وہاں صرف برف اور پھولوں کی دکانیں کھلی رہتی تھیں۔ جہاں اکثرگاہک یہ ان دو چیزوں کی خریداری لاشوں کو تازہ رکھنے اور ان کی تدفین کے لیے کرتے تھے۔ ہٹ لسٹوں پر اہم شہری، سرکاری و غیر سرکاری شخصیات تھیں جن میں عبد الستار ایدھی بھی شامل تھے تو سندھ کے تب کے آئی جی پولیس افضل شگری بھی۔

انیس سو بانوے میں آپریشن شروع ہوا۔ کراچی سمیت سندھ ایک فوجی محاصرے تلے یا مفتوح علاقہ لگتا تھا۔ یہ سب کچھ خبروں میں نہیں آتا تھا کیونکہ تب آئی ایس پی آر کے کرنل صولت، میجر چشتی اور بریگیڈئير آصف ہارون کا کراچی میں طوطی بولتا تھا۔ ’امبیڈیڈ جرنلسٹ‘ کا نام تو بہت بعد میں عراق کی جنگ میں سننے میں آیا لیکن کراچي اور پاکستان کا میڈیا تو بہت پہلے سے ہی امبیڈیڈ یا فوج کے ہمرکاب ہو چکا تھا۔

کراچي میں آئي ایس پی آر کے میجر چشتی کا چند ’سرکاری وجوہات‘ کی بنا پر افریقہ تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ایف آئی ٹی یا فٹ (فیڈرل انویسٹیگشن ٹیم) کرنل آفریدی کے ماتحت لوگوں کی باندھ چھوڑ میں ملوث تھی۔ افغانستان اور سندھ ایسے دو علاقے تھے جن پر سویلین حکومتوں کی دسترس نہ ہونے کے برابر تھی۔

خیرپور میرس میں گلو سیال تھانے کی حد میں ایک ایسے شخص کی کیٹی پر ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے کے الزام میں چھاپے مارے نے والے ایس پی پولیس کو فوجی ایجنسی نے ڈاکوؤں کا ہمدرد بتا کر کھڈے لائن لگادیا تھا اور سندھی وڈیرے کو سندھ کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ بعد میں یہی ایس پی میجر امتیاز بینظیر بھٹو کے سکیورٹی انچارج بنے جو ان کے قتل کے وقت بھی ان کی سکیورٹی سنبھالے ہوئے تھے۔ یعنی کہ یہ تمام لوگ بینظیر بھٹو کے کتنے قریب تھے! (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment