Saturday, September 5, 2009

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (آخری قسط)

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (آخری قسط)خالد کاشمیری



اتوار ستمبر 6, 2009

ان میں بوڑھے بھی تھے ،نوجوان بھی اور مائیں بھی اور بہنیں بھی مہاجر قومی موومنٹ اور اسکی قیادت کے حوالے سے ان کی داستان اہم ایک الگ باب کی حیثیت رکھتی تھیں ان مظلوموں کی تصاویر اور فریادیں راقم الحروف کے پاس موجود ہیں۔
لانڈھی نمبر2کراچی کے ٹارچر سیل میں داخل ہوتے ہی اخبار نویسوں پر دہشت سی طاری ہو گئی یہ ٹارچر سیل لائنز ایریا کے ٹارچر سیل سے بڑا تھا کراچی کے صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقہ نمبر96میں واقع تھا بتایاگیا اس سیل کو ایم کیو ایم نے وائٹ ہاؤس کانام دے رکھا ہے اس کی بلند وبالا دیواروں پر آئینی گارڈر ڈال کر لوہے کی چھت ترتیب دی گئی تھی آئینی سٹرکچر سے موٹے رسے اور لوہے کی زنجیریں لٹکائی گئی تھیں ٹارچر سیل میں لانے والوں کو رسوں اور زنجیروں سے الٹا لٹکایا جاتا یہاں بھی اپنی اپنی داستان رنج وغم سنانے والوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا وہیں اخبار نویسوں سے ایم کیو ایم کے کارکن اور سابق رکن اسمبلی یونس خان سے ملاقات ہوئی یونس خان نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹارچر سیلوں اور ان میں مخالفین پر روا رکھے جانے والے روح فرسامظالم کا راز انہوں نے طشت ازبام کیا جب ایم کیو ایم کی قیادت سے یونس خان اور ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا یونس خان نے فوجی حکام کی موجودگی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ لانڈھی میں وائٹ ہاؤس نامی اس ٹارچر سیل کو مخالفین کو اذیتوں سے دوچار کرنے کے لئے بنایاگیاتھا وہاں لوگوں نے فوجی حکام کی موجودگی میں کھلے لفظوں میں کہا کہ اس ٹارچر سیل کے سلیم شہزاد اور صفدر باقر ی نامی لوگ تھے یہاں مخالفین کو زنجیروں سے باندھ کر سرنج لگا کر ان کا سارا خون نچوڑ کر موت کی نیند سلایا جاتا۔
ٹارچر سیلوں میں روا رکھی جانے والی ہولناک کارروائیوں کی پکار کرنے والے لوگوں کے ہجوم میں اخبار نویسوں نے فوجی حکام کے ساتھ فلائنگ کوچ میں ملیر کا رخ کیا جہاں کراچی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل سلیم ملک نے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا ان کی باتیں چونکا دینے والی تھیں یہ باتیں ملک بھر کے اخبارات کی زینت بنیں ریکارڈ اب تک موجود ہے جی او سی کراچی سلیم ملک نے کہا کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے 33ٹارچر سیلوں کو فوجی آپریشن سے ختم کیاگیا جن شاہراوں کی ایم کیو ایم نے قلعہ بندیاں کی تھیں وہاں سے اٹھارہ سو آہنی درازوں کو اکھاڑ پھینکا گیا اور ان شاہراہوں کو عوام کے لئے کھول دیاگیا انہوں نے کہا کہ جب آئین کی دفعہ147کے تحت مئی1992ء میں فوج کو سندھ بھیجا گیا تو اس وقت سندھ میں صوبائی حکومت موجود تھی مگر اس شہر کا امن وامان غارت ہو چکا تھا اتنا بڑا شہر سرشام ہی سناٹوں کی گود میں چلا جاتا تھا کراچی سمیت پورا سندھ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ فوج کی طرف سے آپریشن امن1992ء کراچی کی پوری داستان سے یہ بات کہیں ظاہر نہیں ہوتی نہ اس کے حقائق سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ آپریشن ایم کیو ایم یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف تھا صرف کراچی میں امن وامان کی بحالی کے حوالے سے فوج کو ایم کیو ایم کے ٹارچر سیلوں اور خود ساختہ نوگوایریاز کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے پڑے جبکہ آپریشن1992ء صوبہ سندھ میں ڈاکو راج ختم کر کے امن وامان بحال کرناتھا۔
25دسمبر1992ء کی شام ہم سب میجر( اب کرنل ریٹائرڈ) سفیر تارڑ کے ساتھ فلائنگ کوچ میں بیٹھے کراچی سے حیدر آباد کا رخ کئے ہوئے تھے حیدر آباد میں ہمارا پڑاؤ18ویں ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر تھا جہاں حیدر آباد کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرلہراسب خان ہمارے منتظر تھے رات کے پونے آٹھ بج چکے تھے میجر جنرل لہراسب خان نے بریفنگ ہال میں اخبار نویسوں سے مصافحہ کیا حال احوال پوچھا پھر کہا کہ صوبہ سندھ میں ڈکیتیوں نے کاروبار کی صورت اختیار کرلی تھی چین اور جاپان کے باشندوں کے اس صوبے سے اغواء ہونے سے ملک کی بدنامی بھی ہوئی مگر خدا کا فضل ہے کہ فوج کو صوبے میں امن وامان کی بحالی اور ڈاکوؤں کی سرکوبی کا جو کام سونپا گیا تھا اس نے اسے پورا کردیا ہے اب یہاں مکمل امن وامان ہو چکا ہے ڈاکوؤں ،زمینداروں اور جاگیرداروں کے امن دشمن سنگین اقدامات کی بہت سی باتوں کے علاوہ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ مہاجر قومی موومنٹ ایک سیاسی جماعت تھی جو پچھلی اور موجودہ حکومت کی حلیف تھی حکومت میں شامل رہی چنانچہ ایم کیو ایم نے اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلحہ کے بے شمار لائسنس حاصل کئے جس کی بنیاد پر ہتھیار لئے گئے اس میں سے اکثر اسلحہ لائسنس بوگس ناموں اور پتوں پر حاصل کئے گئے تھے جن کی اب نشاندہی بھی نہیں کی جاسکتی میجر جنرل ہراسب نے کہا کہ ایم کیو ایم کو حکومت ہی نے مسلح کیا تھا مگر یہ تو سیاست کی بات ہے جس میں ہم ملوث نہیں ہونا چاہتے تاہم اگر کل کو حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کی دوبارہ سرپرستی کی جاتی ہے تو لاقانونیت کی کیفیت دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے اس موقع پر ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ بھی اخبار نویسوں میں تقسیم کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ جولائی 1991ء کے پہلے ہفتہ وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے 6000/- اسلحہ لائسنس منظور کر کے ایم کیو ایم کے وائس چےئر مین سلیم شہزاد کو دئیے گئے ایم آئی کی اعلیٰ ترین سطح سے یہ رپورٹ20جولائی1991ء کو جاری کی گئی تھی۔

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (1)

کراچی آپریشن1992۔۔ اصل حقائق۔ ۔ ۔ (1)خالد کاشمیری


ہفتہ ستمبر 5, 2009

کراچی سمیت صوبہ سندھ کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں ڈاکوؤں نے اودھم مچا رکھا تھا مار دھاڑ آبروریزی، اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتی اور رہزنی کی ان گنت وارداتوں نے عوام میں خوف وہراس پیدا کر رکھا تھا۔ شریف شہریوں کا جینا دو بھر ہو چکا تھا اس ابترصورت حال کو سنبھالا دینے کے لئے صوبہ سندھ کی حکومت کو فوج کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ اسی فوجی آپریشن کے دوران انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے زیر اہتمام پنجاب سے تعلق رکھنے والے قریباً ایک درجن سینئر صحافیوں پر مشتمل وفد کو صوبہ سندھ کا ایک ہفتہ کا دورہ کرایا گیا سینئر ہونے پر راقم الحروف اس وفد کا قائد تھا۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے اس وقت کے افسر تعلقات عامہ میجر سفیر تارڑ اس وفد کو لے کر صوبہ سندھ روانہ ہوئے اس دورے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ صوبہ سندھ میں ڈاکوؤں نے اپنی دہشت ناک کارروائیوں سے شہری زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اس صورت حال کا سدباب کرنے اور اندرون سندھ اور شہروں میں ڈاکوؤں اور شرپسند عناصر کا قلع قمع کرکے امن بحال کرنے میں فوج نے جو کردار ادا کیا اور کررہی ہے اس سے اخبار نویسوں کو آگاہ کیا جائے اور پنجاب کے اخبار نویس ایسی صور تحال کا بنفس نفیس ملاحظہ کر سکیں۔
پنجاب کے اخبار نویس آئی ایس پی آر کے افسر تعلقات عامہ میجر سفیر تارڑ (جو کرنل کے عہدہ پر ترقی پانے کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں) کی سرکردگی میں بذریعہ طیارہ 20دسمبر کی رات لاہور سے سکھر پہنچے تھے اپنے دورہ سندھ کے دوران میں وفد کے ارکان نے پنو عاقل چھاؤنی گھوٹکی، قادر پور، خیر پور، گوٹھ صادق ،کلہوڑو، حیدر آباد اور کراچی کا تفصیلی دورہ کیا فوج کے ذمہ دار افسروں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں صحافیوں نے صوبے کے اس کچے کے وسیع وعریض علاقہ کو بھی دیکھا جو ڈاکوؤں کی آماجگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور یہ علاقہ گھنے جنگلات کی صورت میں ہے۔بہرحال21دسمبر1992ء کو پنوں عاقل چھاؤنی کے جی او سی میجر جنرل سلیم ارشد نے اخبار نویسوں سے گفتگو کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سندھ میں پائیدار امن کے لئے سیاسی سفارشوں کو ختم کرنا ہوگا۔ غریب عوام فوج کے چلے جانے کے خوف سے ڈاکوؤں کے خلاف گواہی دینے سے کتراتے ہیں فوج نے سندھ میں امن وامان سے عبارت مشن کے حصول کی خاطر اپنے 23افسروں اور جوانوں کی قربانی دی ہے۔ کلاشنکوف سے کسی بھی شخص کو ہلاک کردینا ڈاکوؤں کے لئے معمول کی کارروائی کا حصہ تھا۔ فوج نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے جو کارروائی کی خدا کے فضل سے اس کے نتائج کوئی معمولی نوعیت کے نہیں ہیں ۔

گوٹھ صادق سے ہیلی کاپٹر جنگل پر پرواز کرتا ہوا چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع موضع آدم کلہوڑہ اترا۔ وہاں فوج نے عارضی ہیلی پیڈ بنایا ہوا تھا فوجی ترجمان نے بتایا کہ آدم کلہوڑہ کا جنگل اڑھائی ہزار ایکڑ رقبے پر محیط ہے اسی جگہ فوجی یونٹ نے اپنا پڑاؤ رکھا ہوا تھا ہیلی کاپٹر کی آمد اور پھر اسکے اترنے پر جب دور ونزدیک کے کچھ لوگوں کو معلوم ہوا کہ اخبار نویسوں کی ایک جماعت علاقے کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے آئی ہے تو بہت سے مرد اور بچے دوڑتے ہوئے وہاں آئے ان میں ایک ستر سالہ باریش بزرگ حاجی آدم کلہوڑو بھی تھے انہوں نے بتایا ان کا خاندان صدیوں سے اس جگہ آباد ہے انہوں نے بتایا کہ یہ گاؤں آدم کلہوڑو انہی کے نام پر ہے مگر گزشتہ برس سے اس جگہ پر ڈاکوؤں کا راج ہوگیا امن وامان کی اس زمین پر خوفناک قسم کی وارداتیں ہونے لگیں ڈاکو جس کو چاہتے اٹھا کر جنگل میں لے جاتے مقامی لوگ اپنی عزت وناموس کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں بربادی کے خوف سے نقل مکانی کر گئے۔ پھر جب فوج نے یہاں آکر ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنا شروع کیا تو لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں آنے کی ہمت ہوئی۔

22دسمبر کو ہم لوگ گھوٹکی میں تعینات فوج کی 17ایف ایف کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جو محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤس میں تھا وہاں لیفٹیننٹ کرنل جاوید ریاض نے بات چیت کے دوران بتایا کہ اس علاقے میں آپریشن امن کا آغاز جولائی کے آغاز پر کیا تھا۔8جولائی1992ء سے قبل اس علاقے میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں معمول کی بات تھی مگر آپریشن کے بعد چھ ماہ ہونے کو آئے ہیں اس دوران میں اغواء کی صرف سات وارداتیں ہوئی ہیں۔فوج نے ان سب اغواء ہونے والوں کو برآمد کر کے بدنام زمانہ ڈاکو کو گرفتار کرلیا جبکہ گھوٹکی سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع قادر پور، میرپور متھیلو اور اوباڑو کو ایسی وارداتوں سے پاک کر دیا تھا ۔ خیرپور صوبہ سندھ کے ان علاقوں میں سرفہرست تھا جہاں ڈاکو راج قائم ہو چکا تھا شہریوں کا جینا محال تھا ڈاکو ساری رات جدید ترین اسلحہ کے ساتھ شہری آبادی میں وارداتیں کرتے اور پوپھوٹتے ہی قریبی گھنے جنگلوں میں روپوش ہو جاتے خیر پور میں بریگیڈئیر غازی نے صورت حال کی تازہ ترین تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جون سے لے کر دسمبر1992 تک خیرپور ضلع میں ڈاکوؤں کے ساتھ فوج کے30مقابلے ہوئے ان میں ایسے ڈاکو بھی مارے گئے جن کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر بھاری رقوم کے انعامات رکھے گئے تھے ان میں ایک ڈاکو یسٰین چانڈیو بھی تھا جس کے لئے بیس لاکھ روپے کا انعام تھا بریگیڈئیر غازی کے مطابق خیر پور میں مجموعی طور پر564 مشکوک افراد گرفتار کئے گئے۔ابتدائی تفتیش کے بعد241کو رہا کردیاگیا 90 ڈاکو فوج کے ہاتھ لگے گرفتار شدہ ہتھیاروں کی تعداد 31اور 63پستول،33 کلاشنکوف، 33 کاربین اور 98شارٹ گن برآمد کی گئیں۔ میرپور سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنگل کے کنارے کنارے پرواز کرتے ہوئے گوٹھ دوست محمد گئے تو گاؤں خالی تھا کاشت کار ڈاکوؤں کے بھتہ مانگنے پر نقل مکانی کرچکے تھے۔ 22دسمبر1992ء ہی کو متعدد علاقوں کے دورے کے بعد سہ پہر تقریباًتین بجے بذریعہ ہیلی کاپٹر سکھر روانہ ہوئے جہاں آرٹلری ہیڈ کوارٹر میں چائے پینے کے بعد سکھر شہر میں گھومے اور رات نو بجے بذریعہ طیارہ سکھر سے کراچی چلے گئے اندرون سندھ کے تھکا دینے والے دو روزہ انتہائی تفصیلی دورے کے دوران اخبار نویس اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صوبہ سندھ میں امن وامان کی ناگفتہ بہ حالت کو عسکر ی پاکستان نے سدھار دیا ہے اور شہریوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے وہ خود کو محفوظ خیال کرنے لگے ہیں اور ڈاکوؤں کا رعب ودبدبہ نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ ڈاکوؤں کے گروپوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے یہی تاثر لے کہ ہم کراچی پہنچے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تھی کہ فوج کو سندھ میں امن مشن کے لئے بھیجا گیا تھا اور اس کا اظہار کھلے لفظوں میں صوبہ سندھ میں تعینات اعلیٰ فوجی حکام کی طرف سے بھی بات چیت کے دوران کیاگیا کہ ہم آئین کے دفعہ 147کے تحت صوبائی حکومت کی مدد کے لئے آئے ہیں ۔فوج نے اپنا مشن پورا کردیا ہے اور مستقبل میں کبھی امن وامان اتنا برا نہیں ہوگا جسے درست کرنے کے لئے فوج آئی ہوئی ہے نہ ہی مستقبل میں اتنا اچھا امن وامان ہو سکے گا جتنا اب ہو چکا ہے ۔ 23دسمبر کی صبح فوجی حکام کے ساتھ ہم کراچی کے مشہور ومعروف علاقے لائنز ایریا کا رخ کر رہے تھے ٹھیک دس بجے صبح ہم اخبار نویسوں کی جماعت لائنز ایریا کے ٹارچر سیل میں حیران وششدر کھڑی تھی اسی ٹارچر سیل کی عمارت ہی قلعہ نما قسم کی تھی۔ بیرونی دیواروں میں گنوں اور کلاشنکوفوں کی نالیوں کو باہر نکالنے کے لئے سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ اندر بیٹھے لوگ اسلحہ کی نالیاں باہر نکال کر مورچہ بند ہو سکیں اس مضبوط دیوار کے اوپر آئینی جنگلا تھا ٹارچر سیل میں ہونے والی اذیت ناک کارروائیوں کے بارے میں فوجی حکام نے بتایا کہ عمارت کے ہال نما کمرے میں اذیتیں دینے والے آلات بھی تھے فوجی ترجمان نے بتایاکہ بہت سے آلات تو فوج اکھاڑ کر لیجا چکی ہے اردگرد سے لوگوں کا ہجوم فوجیوں کے ساتھ اخبار نویسوں کو دیکھ کر وہاں جمع ہو گیا ہر مرد وزن اپنی اپنی المناک بپتا سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)

Sindh Operation ki Kahaniyan

آخری وقت اشاعت: Saturday, 5 september, 2009, 09:58 GMT 14:58 PST

کھارادر سے کھجی گراؤنڈ تک

حسن مجتبٰی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیو یارک



سنہ بانوے میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی۔

مئی انیس سو بانوے میں حیدرآباد کے قریب گائوں ٹنڈو بہاول میں فوجی آپریشن میں قتل ہونیوالے نو کسانوں اور کھیت مزدوروں کے قتل کی تحقیقات کے لیے جب سندھ کے اس وقت کے کور کمانڈر جنرل نصیر اختر ٹنڈو بہاول گاؤں آئے تھے تو وہاں انہوں نے واقعے کے ایک چشم دید گواہ چھوٹے بچے سے پوچھا تھا کہ اس کے گھر پر چڑھائي کر کے اس کے ابا کو گرفتار کرنے والے لوگوں نے بھلا کپڑے کس طرح کے پہنے ہوئے تھے؟ بچے نے کور کمانڈر کی وردی کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایسے کپڑے جیسے تم نے پہنے ہوئے ہیں‘۔ ٹنڈو بہاول آج کسے یاد ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انیس سو نوے سے لیکر چھیانوے تک کراچی اور سندہ کے شہری دیہی علاقوں میں جتنے ایم کیو ایم اور غیر ایم کیو ایم لوگ مارے گئے، جتنے سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ اور اردو بولنے والے لوگ مارے گئے، جتنے پولیس، فوج اور رینجرز کے لوگ مارے گۓ ، کھاردار سے لیکر کھجی گراؤنڈ تک، لانڈھی سے لیکر لالو کھیت یا لیاقت آباد تک، منگھو پیر سے لیکر ملیر تک ان تمام لوگوں کے خون کا سراغ کسی کی گردن یا ہاتھوں پر ڈھونڈ لیا جاتا لیکن یہاں حساب بے باک ہو چکا ہے یعنی کہ ’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘۔

بریگیڈئیر امتیاز اور جنرل نصیر اختر یا حمید گل جیسے پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے ’ولی اللہ‘ اور ’بزرگان دین‘ نے مقدس اعترافات کر لیے جس کی کوئي سزا نہیں۔

’اور یہ وہ سورما ہیں جو آئی ایس پی آر کی ٹینکوں پر چڑھے سچ کی وادی کی سیر کو نکلے ہوئے ہیں‘۔ یہ الفاظ تھے جریدے ’نیوز لائن‘ کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی کے جو انہوں نے انیس سو بانوے میں سندھ میں فوجی آپریشن پر نکلنے والے شمارے میں اپنےادرایے میں اس وقت لکھے تھے جب پاکستان کا تقریباً تمام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا فقط فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز ہی چھاپ رہا تھا۔
فوج کی ایجنسی ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) اور دوسری طرف انٹیلیجنس بیورو جس کے ڈائریکٹر جنرل تب بریگیڈئير امتیاز تھے اور آئی ایس آئی کے مابین بھی زبردست شورش نما چپقلش تھی۔ ان ایجنسیوں نے ہر اس شخص ادارے، افسر ، تنظیم اور لیڈر پر دست شفقت رکھا ہوا تھا جو یا سندھ کی صورتحال کی خرابی میں ایندھن پھونک سکتا تھا یا پھر سویلین حکومت کی چولیں ہلا سکتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ نیوز لائن کا وہ پرچہ جس کے سرورق پر فوجی کو لانگ بوٹ تلے ایم کیو ایم کا جھنڈا روندتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ان دنوں ایم کیو ایم کا جھنڈا یا اس کے سربراہ الطاف حسین کی تصویر کا کسی سے برآمد ہونا ٹارچر اور شاید کچھ حالات میں موت کو دعوت دینا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ اسی رضیہ بھٹی اور ان کے جریدے نیوز لائن کے عملے کو ایم کیو ایم میں دھڑے بندی یا اندرونی لڑائي کے متعلق رپورٹیں چھاپنے پر دہلی کالونی کے جلسے میں ایم کیو ایم کے سربراہ نے اپنی تقریر میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔

وہ فقط ایم کیو ایم کے اندر دو دھڑوں کے بیچ دنگا تھا بلکہ فوج کی ایجنسی ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) اور دوسری طرف انٹیلیجنس بیورو جس کے ڈائریکٹر جنرل تب بریگیڈئير امتیاز تھے اور آئی ایس آئی کے مابین بھی زبردست شورش نما چپقلش تھی۔ ان ایجنسیوں نے ہر اس شخص ادارے، افسر ، تنظیم اور لیڈر پر دست شفقت رکھا ہوا تھا جو یا سندھ کی صورتحال کی خرابی میں ایندھن پھونک سکتا تھا یا پھر سویلین حکومت کی چولیں ہلا سکتا تھا۔

ایم کیو ایم کے دونوں متحارب گروپوں کے پاس ایک دوسرے کے کارکنوں کی ہٹ لسٹیں تھیں جن کے مطابق وہ ایک ایسے’سپرے‘ میں مصروف تھے کہ انیس سو بانوے سے انیس سو چھیانوے تک صرف کراچی میں دو ہزار لوگ قتل ہو چکے تھے۔ سرِ شام تھانوں کے دروازوں پر تالے پڑ جاتے مگر پھر بھی تقریباً وہ سب پولیس افسر قتل کر دیے گئے جنہوں نے کراچي آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
’امبیڈیڈ جرنلسٹ‘ کا نام تو بہت بعد میں عراق کی جنگ میں سننے میں آیا لیکن کراچي اور پاکستان کا میڈیا تو بہت پہلے سے ہی امبیڈیڈ یا فوج کے ہمرکاب ہو چکا تھا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب کوئي بھی جوان اور مرد جس کی عمر تیرہ سے چالیس سال ہوتی اپنے گھر میں شاذ ونادر ہی رات کو سوتا تھا۔ چھاپے، محاصرے، ٹارچر، گمشدگیاں، بوری میں بند لاشیں عام تھیں۔ مجھے شاہ فیصل کالونی کے رہائشی ایک بزرگ نے اپنے ننھے منھے پوتے کی موت پر بتایا تھا کہ کئي ماہ میں یہ علاقے میں پہلی موت ہے جو غیر فطری نہیں تھی۔ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ جیسا علاقہ بھی سرشام بند ہو جاتا تھا اور وہاں صرف برف اور پھولوں کی دکانیں کھلی رہتی تھیں۔ جہاں اکثرگاہک یہ ان دو چیزوں کی خریداری لاشوں کو تازہ رکھنے اور ان کی تدفین کے لیے کرتے تھے۔ ہٹ لسٹوں پر اہم شہری، سرکاری و غیر سرکاری شخصیات تھیں جن میں عبد الستار ایدھی بھی شامل تھے تو سندھ کے تب کے آئی جی پولیس افضل شگری بھی۔

انیس سو بانوے میں آپریشن شروع ہوا۔ کراچی سمیت سندھ ایک فوجی محاصرے تلے یا مفتوح علاقہ لگتا تھا۔ یہ سب کچھ خبروں میں نہیں آتا تھا کیونکہ تب آئی ایس پی آر کے کرنل صولت، میجر چشتی اور بریگیڈئير آصف ہارون کا کراچی میں طوطی بولتا تھا۔ ’امبیڈیڈ جرنلسٹ‘ کا نام تو بہت بعد میں عراق کی جنگ میں سننے میں آیا لیکن کراچي اور پاکستان کا میڈیا تو بہت پہلے سے ہی امبیڈیڈ یا فوج کے ہمرکاب ہو چکا تھا۔

کراچي میں آئي ایس پی آر کے میجر چشتی کا چند ’سرکاری وجوہات‘ کی بنا پر افریقہ تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ایف آئی ٹی یا فٹ (فیڈرل انویسٹیگشن ٹیم) کرنل آفریدی کے ماتحت لوگوں کی باندھ چھوڑ میں ملوث تھی۔ افغانستان اور سندھ ایسے دو علاقے تھے جن پر سویلین حکومتوں کی دسترس نہ ہونے کے برابر تھی۔

خیرپور میرس میں گلو سیال تھانے کی حد میں ایک ایسے شخص کی کیٹی پر ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے کے الزام میں چھاپے مارے نے والے ایس پی پولیس کو فوجی ایجنسی نے ڈاکوؤں کا ہمدرد بتا کر کھڈے لائن لگادیا تھا اور سندھی وڈیرے کو سندھ کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ بعد میں یہی ایس پی میجر امتیاز بینظیر بھٹو کے سکیورٹی انچارج بنے جو ان کے قتل کے وقت بھی ان کی سکیورٹی سنبھالے ہوئے تھے۔ یعنی کہ یہ تمام لوگ بینظیر بھٹو کے کتنے قریب تھے! (جاری ہے)